Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

اپنی ذاتی رہائش ہے فی الحال اس کے پاس موٹر سائیکل ہے مگر ایک دو مہینے تک گاڑی لینے کا ارادہ ہے اس کا۔"

" ہر کسی کا معیار مختلف ہوتا ہے ایوب بھائی' مجھے کیا پتا کہ ہانیہ کو کیسا شوہر چاہیے۔۔۔ اگر آپ مجھ سے ایک لڑکی کی خواہش اور پسند پوچھ رہے ہیں تو مجھے تو بس وہ چاہیے جو مجھے اپنا نام دے اور رہنے کے لیے چھت۔ مجھے یہ ڈر نہ ہو کہ میرا کوئی نہیں۔" یہ بات کرتے ہوۓ اس کی انکھیں بھر آئیں۔

ایوب نے دیکھا ' کتنی محرومی تھی ان انکھوں میں' واقعی اج تک صبا اپنا پورا نام نہیں لیتی تھی' پڑھائی کے لیے فارم پر بھی چاچو کا نام سر پرست کے خانے میں ہی لکھا جاتا تھا۔

" صبا۔۔۔۔ صبا۔۔۔۔ صبا ایوب ۔" زیر لب بڑبڑاتے ہوۓ اس نے اس کے نام کو مکمل کیا تھا اور پھر زیر لب مسکرایا تھا۔

" ایوب بھائی ! ہانیہ کا رشتہ آ رہا ہے یہ تو خوشی کی بات ہے پھر مجھے ایسا کیوں لگا کہ آپ پریشانی میں فون سن رہے تھے۔" وہ انکھیں صاف کرتے ہوۓ بولی۔

" ہاں۔۔۔۔ وہ آفاق نے جب رشتے کی بات چھیڑی تو میں سمجھا کہ وہ تمہارے لیے ۔۔۔ انا چاہ رہے ہیں۔" اس کی بات پر صبا نے حیرت سے ایوب کی طرف دیکھا۔

وہ اتنا مکمل شخص اسے اپنے سامنے اتنا ادھورا کیوں لگ رہا تھا' اس کے چہرے پر صبا کو دیکھ کر عجیب سے رنگ چمکنے لگے تھے ۔

" میں ۔۔۔۔ کام کے سلسلے میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔۔ افطاری سے کچھ دیر پہلے آ جاؤں گا' تم جاؤ کچن میں۔" وہ گاڑی کی چابی اٹھا کر نکل گیا۔ صبا کتنے ہی لمحے اس کی بات پر غور کرتی رہی۔

کمرے کی دیواروں پر اویزاں قل کے فریم کو کپڑے سے صاف کرتے ہوۓ اس نے مڑ کر دیکھا' تائی موبائل ہاتھ میں لیے دادی کے سرہانے کھڑی تھیں ' معاملہ گھمبیر لگ رہا تھا۔

" انوشے اور ایوب؟" دادی کا لہجہ سوالیہ تھا۔

اس کے قدم میز پر لڑکھڑاۓ ۔ تائی نے مڑ کر اسے دیکھا اور دوبارہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس کی سانس جیسے ساکن تھی ' خوابوں کے پرندے کہیں فضاؤں میں ہی معلق ہو گئے۔

" ایوب سے پوچھنا پڑے گا ' بہت فرق ہے ایوب اور انوشے میں ۔۔۔ اٹھ نو برس کا۔۔۔ پھر ایوب کا مزاج ملا جلا ہے' کبھی سنجیدہ اور بھی بے تکلف۔۔۔ اور وہ انوشے۔۔۔۔ اکھڑ مزاج۔۔۔" تائی بڑبڑاہٹ کے انداز میں بولیں' وہ چاہ رہی تھیں کہ دادی فون پر ہی انکار کر دیں۔ وہ کپڑا لے کر چھلانگ لگا کر میز سے اتریاور بے حس و حرکت تائی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔

" برداشت نہیں ہوا میری ہانیہ کا رشتہ ' غلطی میری ہی ہےابھی رشتہ ڈھنگ سے ایا نہیں ' میں نے ڈھنڈورا پیٹ دیا' اب اتنی جلدی انوشے کے لیے اور کون ملتا۔۔۔ نظر آ گیا میرا ایوب۔" تائی ماتھا پیٹنے لگیں' دادی بھی فون بند کر کے گہری سوچ میں تھیں۔

" ایسا کچھ غلط بھی نہیں بہو' گھر کی بیٹی ہے اور گھر کا بیٹا' اگر رشتہ ہو جاۓ تو؟" دادی کا ووٹ انوشے کے حق میں تھا۔

   0
1 Comments

Khan sss

29-Nov-2021 10:49 AM

Nice

Reply